کبھی لگی لگائی نوکری مت چھوڑیں۔۔۔

کبھی لگی لگائی نوکری مت چھوڑیں۔۔۔


بہت سے لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ کسی کی باتوں اور مشوروں میں آکر ایک دم لگی لگائی نوکری چھوڑ دیتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کا یہ فیصلہ انتہائی غلط ثابت ہوتا ہے۔۔۔ نوکری میں اکثر لوگ تنگ ہی ہوتے ہیں ماتحتی باس کی کڑوی کسیلی باتیں اور دیگر بہت سے معاملات سے ہر نوکری پیشہ بندہ اپنی نوکری میں کسی نہ کسی حد تک تنگ ہوتا ہے۔۔۔ لیکن مصیبت تب بنتی ہے جب کوئی نوکری سے تنگ بندہ کسی کی موٹیویشنل باتیں سن کر ، ویڈیوز دیکھ کر، تحریریں پڑھ کرفیصلہ کر لیتا ہے اور پھر کسی بہانے کی تلاش میں ہوتا ہے جیسے ہی اسے بہانہ ملا ایک دم نوکری کو لات مار دیتا ہے تو وہ چند دن تو کیسے تیسے کر کے گزارتا ہے لیکن جب جیب خالی ہوتا ہے تو سمجھ آتی ہے کہ غلط فیصلہ ہوا۔۔۔ جب تنخواہ پر گزارہ ہورہا ہے پورے مہینے کا حساب تنخواہ سے وابستہ ہوتو پھر اچانک نوکری چھوٹنے سے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔آگے کی کوئی پلاننگ نہ ہو موجودہ نوکری کے علاوہ آگے کوئی دوسری نوکری بھی نہ ہوتو سوائے ٹکریں مارنے اور پچھتاوے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔۔۔لگا ہوا رزق چھوڑنا اور چھڑادینے میں فرق ہوتا ہے جو لوگ لگی ہوئی روزی کو حقارت یا تذلیل سے چھوڑتے ہیں اکثر ایسے لوگ بہت پچھتاتے ہیں۔۔۔اگر نوکری کسی وجہ سے چھوٹ جائے یا نکال دیا جائے تو وہ اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہوتی ہے اور تجربے سے یہ بات ثابت شدہ ہے کسی کی سازش سے، کسی حادثے کی وجہ سے یا کسی مجبوری کی وجہ سے نوکری کا چھوٹ جانا اس سے بہتر   نوکری کا سبب بنتی ہے۔۔۔ لگی لگائی نوکری بغیر کسی سخت مجبوری یا کسی عذر کی وجہ سے چھوڑ دینا اپنی انایا ذاتیات کی وجہ سے نوکری چھوڑ دینا دراصل لگی ہوئی روزی چھوڑنے کے مترادف ہے۔۔۔ اور لگی ہوئی روزی چھوڑ دینا ناشکری اور بے قدری کے زمرے میں آتا ہے۔۔۔یقیناً رزق کی ناقدری اور نا شکری کا انجام بہت بہیانک ہوتا ہے۔۔۔

----------

یہ بات حقیقت اور اٹل ہے کہ اپنا بزنس نوکری سے کوئی گنا زیادہ بہتر ہے نوکری کے مقابلے میں بزنس کے بہت فضائل ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بزنس کرنا ہر بندے کے بس کا کام نہیں ہے۔۔۔ ہر بندہ نہ تو بزنس کرسکتا ہے اور نہ ہی ہر بندے میں اتنی سینس اورقابلیت ہوتی ہے کہ وہ بزنس کرے۔۔۔بزنس کرنے کے لئے ہمت جوش جذبہ اوررسک لینے کا جگرا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔۔۔ نوکری پیشہ بندے کو بزنس کی طرف راغب کرنا اور اس کا ٹریک چینج کرنا مشکل ترین کام ہے اور پھر جس بندے کی تنخواہ اچھی ہو اس کو بزنس پر منتقل ہونے کے لئے بہت بڑا جگر اور ہمت چاہئے۔۔۔ یوٹیوب، بزنس موٹویشنل احباب ہر بندے کو ایک چھڑی سے ہانکتے ہیں بزنس کے فضائل سنا سنا کر ایک عام بندے کے دماغ کا دہی کر دیتے ہیں۔۔۔ نوکری پیشہ بندہ اگر کسی کی تحریر سے متاثر ہوجائے، کسی بزنس موٹیویشنل سپیکر کی باتوں پر عمل کر لے، کسی کی ویڈیوز دیکھ کر فیصلہ کر بھی لے تو اس کے بعد کے مراحل کے لئے وقت چاہئے کسی بھی بزنس کے لئے انویسٹمنٹ، پلاننگ اور سب سے اہم چیز تجربہ بہت ضروری ہے۔۔۔ اگر اچانک نوکری چھوڑ کر بزنس شروع کر دیا تو پہلے انویسٹمنٹ لائی جائے گی نوکری سے حاصل شدہ جمع پونجی بزنس میں لگا دی تو تجربہ اور پلاننگ نہیں ہوتی تو نتیجتاً کیا ہوتا ہے کہ ایسا بزنس بری طرح فلاپ ہوتا ہے اور وقت، جمع پونجی اور صلاحیتیں سب کچھ تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔۔۔

----------

اگر کوئی بندہ نوکری سے تنگ ہے او ر نوکری چھوڑ کر بزنس کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے پلاننگ کرے، پارٹ ٹائم بزنس کرے اس فیلڈ میں تجربہ حاصل کرے جب یقین ہوجائے کہ اب وہ سمجھ چکا ہے اور کامیابی یقین ہے تو پھر جاب چھوڑ دے۔۔۔جیسے ایک نوکری سے دوسری نوکری پر منتقل ہونے والے سمجھدار لوگ ایسا کرتے ہیں کہ موجودہ نوکری سے بہتر نوکری تلاش کرتے ہیں یا کہیں سے اچھی آفر آجائے تو اس پر ہر لحاظ سے غور و فکر کرتے ہیں اچھی طرح چھان بین کر کے نوکری سے ریزائن دے کر فوراً دوسری نوکری جوائن کر لیتے ہیں۔۔۔ لیکن اگر ایک بندے نے دوسری نوکری ڈھونڈی بھی نہیں کوئی پلاننگ بھی نہیں تو وہ اچانک نوکری چھوڑ دے تو وہ کیا کرے گا جب تک دوسری نوکری نہیں ملتی تو وہ ٹکریں مارتا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مجبوراً وہ ا سے کم تنخواہ والی نوکری کرتا ہے یا پھر کوئی اس سے بھی بری جگہ پر پھنس جاتا ہے۔۔۔جذبات ، انا اور ذاتیات کی وجہ سے کئے جانے والے اچانک فیصلے انسان کو بہت مشکلات میں ڈال دیتے ہیں اور ایسے فیصلوں کا افسوس اور پچھتاوا ہمیشہ رہتا ہے۔۔۔

----------

یاد رکھیں۔۔۔

کسی کی باتوں میں آکر ، کسی موٹیویشنل سپیکر کی باتوں سے متاثر ہوکر، یا کسی کی ویڈیوز دیکھ کر کبھی فیصلہ مت کریں۔۔۔ کیوں کہ اکثر موٹیویشنل سپیکر نے خود کبھی بزنس نہیں کیا ہوتاوہ صرف باتوں کا منجن بیجتے ہیں، ویڈیوز بنانے والوں کا کام ہی ویڈیوز بنا کر زیادہ ویووز حاصل کرنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور لکھنے والے بھی زیادہ لائک یا فالونگ کے چکر میں چکنی چوپڑی باتیں لکھتے ہیں۔۔۔ ایک اصول اپنا لیں کہ جس موٹیوشنل سپیکر سے بزنس کے متعلق سنیں تو اس سے پوچھیں کہ آپ نے خود یہ بزنس کیا ہے یا آپ کو اس کی باریکیاں معلوم ہیں۔۔۔ بزنس پڑھنے، دیکھنے، سننے میں اور عملی طور پر بزنس کرنے میں زمین آسمان کا فرق ہے جو لوگ جس بزنس سے منسلک ہوں ان سے جب تک معلومات نہ لی جائیں جب تک عملی طور پر تجربہ حاصل نہ کیا جائے تب تک کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔۔۔ جس بندے نے جو کام کیا ہو یا اس کو سمجھا ہو قریب سے دیکھا ہو یا اس کا کوئی قریبی بندہ کام کر رہا ہو تو وہی صحیح بتا سکتا ہے کتنا دودھ اور کتنا پانی ہے۔۔۔اس لئے کبھی کسی ایسے بندے کی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہئے جسے بذاتِ خود تجربہ نہ ہو وہ کام خود کیا نہ ہو۔۔۔۔

----------

ہر انسان کو اللہ نے مختلف صلاحیتوں اور قابلیت سے نوازا ہوتا ہے جس طرح ہر انسان شکل وصورت عقل شعور سمجھداری میں دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اسی طرح ہر لحاظ سے ہر انسان کو اللہ نے مختلف صلاحیتیں عطاء کیا ہوتی ہیں۔۔۔ جو لوگ دوسروں کی صلاحیتوں سے متاثر ہوکر وہی کچھ کرنے لگتے ہیں یا دوسرا کوئی بندہ جو کام کر رہا ہو یا جس فیلڈ میں ہو وہ بھی اسی فیلڈ کو اختیار کر لے تو اکثر سوائے وقت کے ضیاع ، صلاحیتوں اور قابلیت کی بربادی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔۔۔ ہرانسان دوسرے سے مختلف ہے تو اس کے لئے بہتر یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں سے مختلف کچھ کرے ہر بندے میں الگ ٹیلنٹ ہوتا ہے تو وہ اپنے لئے کچھ الگ سے کرے۔۔۔دیکھا دیکھی اور بھیڑ چال کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی صلاحیتیں بھی کھو دیتا ہے اور پیچھے چلنا اکثر سست روی کا باعث بنتا ہے۔۔۔ آپ باصلاحیت اور قابل ہیں آ پ میں اللہ نے سینکڑوں صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں تو آپ کچھ نیا اور منفرد کرسکتے ہیں۔۔۔ بس ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ اپنی صلاحیتوں کی پہچان کی جائےاور اپنی قابلیت کی قدر کی جائے۔۔۔ آپ کو اگر خود پر بھروسہ اور اعتماد ہے اور کچھ نیا کرنے کا عزم کر چکے ہیں اپنی صلاحیتوں پر اعتماد ہے تو اللہ کا نام لے کر اپنےلئے الگ راستہ خود منتخب کریں اوراپنی منزل کی طرف کامزن ہوجائیں ان شاء اللہ کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔۔۔

~ حامد حسن

(پوسٹ شئیر کردیا کریں سوشل میڈیا کا اصل مقصد علمی و معاشی شعور کی بیداری ہے ناکہ بے تکا مزاحیہ مواد کا پھیلاؤ، اپنے کاروباری دوستوں کو ٹیگ بھی کرسکتے ہیں !)🌷

Post a Comment

0 Comments