کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا حکم اور طریقہ

 ✨❄ *اِصلاحِ اَغلاط: عوام میں رائج غلطیوں کی اصلاح* ❄✨


*سلسلہ نمبر 58:*

🌻 *کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا حکم اور طریقہ*

(تصحیح ونظر ثانی شدہ)


🌼 *کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کی سنت سے عمومی غفلت:*

حضور اقدس ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہونے کی اہمیت اور فضیلت بڑی واضح سی بات ہے، یہ حضور اقدس ﷺ کی محبت کا حق بھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی ہر سنت کی یہ خاصیت ہے کہ یہ بندے کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حضور اقدس ﷺ کی سنتوں میں سے ایک اہم سنت کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنا بھی ہے، دیگر بہت سی سنتوں کی طرح اس سنت سے بھی ہمارے معاشرے میں عمومی غفلت پائی جاتی ہے کہ کوئی تو ۔۔۔معاذ اللہ۔۔۔ اسے عیب اور بد تہذیبی سمجھتا ہے اور کوئی انگلیاں چاٹے بغیر ہی ہاتھ دھولیتا ہے یا پھر کسی کپڑے یا ٹیشو پیپر وغیرہ سے صاف کرلیتا ہے۔ اس طرح  کی باتوں کے نتیجے میں انگلیاں چاٹنے کی سنت فراموش ہوجاتی ہے، حالاں کہ ایک مسلمان کے لیے حضور اقدس ﷺ کی سنت سب سے بڑھ کر ہونی چاہیے۔ اور یہی ہر مسلمان کا یقین ہے کہ حضور اقدس ﷺ کی سنت تہذیب کے سب سے اعلیٰ پیمانے پر ہے اور تہذیب اسی میں منحصر ہے، بلکہ یہ تمام تر تہذیبوں کی اصلاح کے لیے ایک واضح معیار اور پیمانہ بھی ہے!


🌼 *کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کا حکم:*

کھانا کھانے کے بعد ہاتھ دھونے اور کسی کپڑے یا ٹیشو پیپر وغیرہ سے صاف کرنے سے پہلے انگلیاں چاٹنا سنت ہے، متعدد احادیث میں اس کی ترغیب اور اہمیت بیان فرمائی گئی ہے۔

(عمدۃ القاری، اِصلاحی خطبات جلد 5)

1⃣ حدیث: حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو (اس کے بعد) ہاتھ کو (کسی کپڑے وغیرہ سے) صاف کرنے سے پہلے اس (کی انگلیوں) کو چاٹ لے یا کسی اور کو چٹوادے۔"

☀️ صحیح بخاری میں ہے:

5456- عَنْ عَطَاءٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضِی اللہُ عنھما: أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: «إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ فَلَا يَمْسَحْ يَدَهُ حَتَّى يَلْعَقَهَا أَوْ يُلْعِقَهَا».

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر خود انگلیاں نہ چاٹے تو کم ازکم کسی دوسرے کو چٹوادے، اس حدیث سے کھانے سے فراغت کے بعد انگلیاں چاٹنے کی تاکید اور اہمیت معلوم ہوتی ہے۔


2⃣ حدیث: حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’(تم میں سے کوئی شخص کھانا کھانے کے بعد) ہاتھ کو رومال (یا کسی اور چیز) سے صاف کرنے سے پہلے اپنی انگلیاں چاٹ لے کیوں کہ اسے نہیں معلوم کہ کھانے کے کونسے حصے میں برکت ہے!‘‘

☀️ صحیح مسلم میں ہے: 

5421- عَنْ أَبِى الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «إِذَا وَقَعَتْ لُقْمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيَأْخُذْهَا فَلْيُمِطْ مَا كَانَ بِهَا مِنْ أَذًى وَلْيَأْكُلْهَا وَلَا يَدَعْهَا لِلشَّيْطَانِ، وَلَا يَمْسَحْ يَدَهُ بِالْمِنْدِيلِ حَتَّى يَلْعَقَ أَصَابِعَهُ؛ فَإِنَّهُ لَا يَدْرِى فِى أَىِّ طَعَامِهِ الْبَرَكَةُ». 

(باب اسْتِحْبَابِ لَعْقِ الأَصَابِعِ) 


🌼 *کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کی حکمت:*

ماقبل کی حدیث سے انگلیاں چاٹنے کی حکمت یہ معلوم ہوئی کہ چوں کہ ہمیں نہیں معلوم کہ کھانے کے کس حصے اور جُز میں برکت ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ انگلیوں میں لگے کھانے کے اجزا میں برکت ہو، جس کا تقاضا یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے بعد  انگلیاں چاٹ لینی چاہیے تاکہ اگر انگلیوں میں لگے کھانے کے اجزا میں برکت موجود ہو تو وہ حاصل ہوجائے، کیوں کہ اس سے غفلت کے نتیجے میں یہ اندیشہ ہے کہ کہیں برکت سے محروم نہ ہوجائیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ برکت کا حصول کس قدر اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ کھانے کی جسمانی اور روحانی افادیّت تو برکت ہی سے وابستہ ہے!

▪️ انگلیاں چاٹنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس حدیث شریف میں انگلیوں پر لگے کھانے کے اجزا کو بھی کھانے کا حصہ قرار دیا ہے، اس لیے جب کھانا اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے تو انگلیوں پر لگے کھانے کے اجزا بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں، اور جب کھانا قابلِ قدر ہے تو یہ انگلیوں پر لگے کھانے کے اجزا بھی قابلِ قدر ہیں کیوں کہ جس نعمت کا کثیر قابلِ قدر ہے تو اس کا قلیل بھی قابلِ قدر ہے، اس لیے انگلیاں چاٹے بغیر دھولینے یا صاف کرلینے کے نتیجے میں کھانے کے یہ اجزا ضائع ہوجاتے ہیں جو کہ نعمت کی ناقدری ہے، اس لیے کھانے کے بعد انگلیاں چاٹ لی جائیں تاکہ کھانے کے یہ اجزا ضائع نہ ہوں۔


🌼 *کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کی ترتیب اور طریقہ:*

کھانا کھانے کے بعد انگلیاں چاٹنے کی ترتیب اور طریقے سے متعلق ایک حدیث شریف میں حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اقدس ﷺ کو دیکھا کہ وہ تین انگلیوں سے کھانا تناول فرمارہے تھے: انگوٹھے، شہادت کی انگلی اور درمیان والی انگلی سے۔ پھر میں نے دیکھا کہ حضور اقدس ﷺ (کھانا کھانے کے بعد) اپنی ان تین انگلیوں کو (کسی کپڑے وغیرہ سے) صاف کرنے سے پہلے چاٹ رہے تھے، (اس ترتیب کے ساتھ کہ) پہلے درمیان والی انگلی چاٹی، پھر شہادت والی، پھر انگوٹھے کو چاٹا۔

☀️ المعجم الاوسط میں ہے:

1649- عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَأْكُلُ بِأَصَابِعِهِ الثَّلَاثِ: بِالْإِبْهَامِ، وَالَّتِي تَلِيهَا، وَالْوُسْطَى، ثُمَّ رَأَيْتُهُ يَلْعَقُ أَصَابِعَهُ الثَّلَاثَ قَبْلَ أَنْ يَمْسَحَهَا، وَيَلْعَقُ الْوُسْطَى، ثُمَّ الَّتِي تَلِيهَا، ثُمَّ الْإِبْهَامَ».

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے درمیان والی انگلی چاٹی جائے، پھر شہادت کی انگلی اور پھر انگوٹھا۔ (عمدۃ القاری، اِصلاحی خطبات)

اور اگر ان تین انگلیوں کے علاوہ  دوسری انگلیاں بھی کھانے میں استعمال ہوئی ہیں تو ان تین انگلیوں کے بعد پہلے درمیان والی انگلی کے ساتھ والی انگلی، پھر چھوٹی انگلی چاٹ لی جائے۔

(کھانے پینے کے آداب از مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم)

☀️ عمدۃ القاری میں ہے:

الأول: أَن نفس اللعق مُسْتَحبّ؛ مُحَافظَةً على تنظيفها ودفعًا للكبر، وَالْأَمر فِيهِ مَحْمُول على النّدب والإرشاد عِنْد الْجُمْهُور، وَحمله أهل الظَّاهِر على الْوُجُوب، وَقَالَ الْخطابِيّ: قد عَابَ قوم لعق الْأَصَابِع؛ لِأَن الترفة أفسد عُقُولهمْ وَغير طباعهم الشِّبَع والتخمة، وَزَعَمُوا أَن لعق الْأَصَابِع مستقبح أَو مستقذر أَو لم يعلمُوا أَن الَّذِي على أَصَابِعه جُزْء من الَّذِي أكله فَلَا يتحاشى مِنْهُ إلَّا متكبر ومترفه تَارِك للسّنة. الثَّانِي: أَن من الْحِكْمَة فِي لعق الْأَصَابِع مَا ذكره فِي حَدِيث أبي هُرَيْرَة وَأخرجه التِّرْمِذِيّ قَالَ: قَالَ رَسُول الله ﷺ: «إِذا أكل أحدكُم فليلعق أَصَابِعه فَإِنَّهُ لَا يدْرِي فِي أَي طَعَامه الْبركَة». وَأخرجه مُسلم أَيْضا وَالنَّسَائِيّ وَابْن مَاجَه من رِوَايَة سُفْيَان الثَّوْريّ عَن أبي الزبير عَن جَابر قَالَ: قَالَ رَسُول الله ﷺ: «إِذا وَقعت لقْمَة أحدكُم فليأخذها فليُمِطْ مَا كَانَ بهَا من أَذَى وليأكلها وَلَا يَدعهَا للشَّيْطَان، وَلَا يمسح يَده بالمنديل حَتَّى يلعق أَصَابِعه؛ فَإِنَّهُ لَا يدْرِي فِي أَي طَعَامه الْبركَة» يَعْنِي: فِيمَا أكل أَو فِيمَا بَقِي فِي الْإِنَاء، فيلعق يَده وَيمْسَح الْإِنَاء رَجَاء حُصُول الْبركَة. وَالْمرَاد بِالْبركَةِ -وَالله أعلم- مَا يحصل بِهِ التغذية وتسلم عاقبته من أَذَى ويقوى على طَاعَة الله تَعَالَى، وَغير ذَلِك، وَقَالَ النَّوَوِيّ: وأصل الْبركَة الزِّيَادَة وَثُبُوت الْخَيْر والامتناع بِهِ. وَالثَّالِث: أَنه يَنْبَغِي فِي لعق الْأَصَابِع الِابْتِدَاء بالوسطى ثمَّ السبابَة ثمَّ الْإِبْهَام، كَمَا جَاءَ فِي حَدِيث كَعْب بن عجْرَة رَوَاهُ الطَّبَرَانِيّ فِي «الْأَوْسَط» قَالَ: رَأَيْت رَسُول الله ﷺ يَأْكُل بأصابعه الثَّلَاث قبل أَن يمسحها بالإبهام وَالَّتِي تَلِيهَا وَالْوُسْطَى، ثمَّ رَأَيْته يلعق أَصَابِعه الثَّلَاث فيلعق الْوُسْطَى ثمَّ الَّتِي تَلِيهَا ثمَّ الْإِبْهَام. وَكَانَ السَّبَب فِي ذَلِك أَن الْوُسْطَى أَكثر الثَّلَاثَة تلويثًا بِالطَّعَامِ؛ لِأَنَّهَا أعظم الْأَصَابِع وأطولها، فَينزل فِي الطَّعَام مِنْهُ أَكثر مِمَّا ينزل من السبابَة، وَينزل من السبابَة فِي الطَّعَام أَكثر من الْإِبْهَام؛ لطول السبابَة على الْإِبْهَام وَيحْتَمل أَن يكون البدء بالوسطى؛ لكَونهَا أول مَا ينزل فِي الطَّعَام؛ لطولها. وَالرَّابِع: أَن فِي الحَدِيث: «فَلَا يمسح يَده حَتَّى يلعقها»، وَهَذَا مُطلق، وَالْمرَاد بِهِ الْأَصَابِع الثَّلَاث الَّتِي أَمر بِالْأَكْلِ بهَا كَمَا فِي حَدِيث أنس أخرجه مُسلم وَأَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ من رِوَايَة حَمَّاد ابن سَلمَة عَن ثَابت عَن أنس: أَن رَسُول الله ﷺ كَانَ إِذا أكل طَعَاما لعق أَصَابِعه الثَّلَاث، وَبَين الثَّلَاث فِي حَدِيث كَعْب بن عجْرَة الْمَذْكُور أنفًا، وَهَذَا يدل على أَنه ﷺ كَانَ يَأْكُل بِهَذِهِ الثَّلَاث الْمَذْكُورَة فِي حَدِيث كَعْب. وَقَالَ ابْن الْعَرَبِيّ: فَإِن شَاءَ أحد أَن يَأْكُل بالخمس فَليَأْكُل فقد كَانَ النَّبِي ﷺ يتعرق الْعظم وينهش اللَّحْم، وَلَا يُمكن أَن يكون ذَلِك فِي الْعَادة إلَّا بالخمس كلهَا. وَقَالَ شَيخنَا: فِيهِ نظر؛ لِأَنَّهُ يُمكن بِالثلَاثِ، وَلَئِن سلمنَا مَا قَالَه فَلَيْسَ هَذَا أكلا بالأصابع الْخمس، وَإِنَّمَا هُوَ مُمْسك بالأصابع فَقَط لَا آكل بهَا، وَلَئِن سلمنَا أَنه آكل بهَا لعدم الْإِمْكَان فَهُوَ مَحل الضَّرُورَة كمن لَيْسَ لَهُ يَمِين فَلهُ الْأكل بالشمال. قلت: حَاصِل هَذَا أَن شَيخنَا منع اسْتِدْلَال ابْن الْعَرَبِيّ بِمَا ذكره، وَالْأَمر فِيهِ أَن السّنة أَن يَأْكُل بالأصابع الثَّلَاث وَإِن أكل بالخمس فَلَا يمْنَع، وَلكنه يكون تَارِكًا للسّنة إلَّا عِنْد الضَّرُورَة فَافْهَم. (باب لعق الأصابع ومصها قبل أن تمسح بالمنديل)

☀️ فتح الباری میں ہے:

وقع في حديث كعب بن عجرة عند الطبراني في «الأوسط» صفة لعق الأصابع ولفظه: رأيت رسول الله ﷺ يأكل بأصابعه الثلاث بالإبهام والتي تليها والوسطى، ثم رأيته يلعق أصابعه الثلاث قبل أن يمسحها الوسطى ثم التي تليها ثم الإبهام. قال شيخنا في «شرح الترمذي»: كأن السر فيه أن الوسطى أكثر تلويثّا؛ لأنها أطول فيبقى فيها من الطعام أكثر من غيرها، ولانها لطولها أول ما تنزل في الطعام، ويحتمل أن الذي يلعق يكون بطن كفه إلى جهة وجهه، فإذا ابتدأ بالوسطى انتقل إلى السبابة على جهة يمينه وكذلك الإبهام، والله أعلم. (قوله: باب المضمضة بعد الطعام)


Post a Comment

0 Comments