عرب اور پاکستان کی تراویح میں فرق

 عرب اور پاکستان کی تراویح میں فرق :


*تراویح میں کویتی عربی حافظ نے پاکستانی حافظ کو کیا کہا...* 

اگر یہ تحریر نہیں پڑھی تو کچھ نہیں پڑھا..... 

 غور فرمائیے

املاء کی غلطی پر پیشگی معذرت خواہ ہوں۔ 


  کویت میں کچھ رہائشی مکانات کی تعمیر کا سلسلہ جاری تھا... 

پاکستان کی ایک تعمیراتی کمپنی NC کو بھی چند سو مکانات کا ٹھیکہ دیا گیا۔

وہاں کام کرنے والے پاکستانی ملازمین نے اپنے رہائشی کیمپ میں اپنے لیے ایک عارضی مسجد بنا لی اور باجماعت نماز کا اہتمام کیا.... 


چار پانچ ماہ بعد رمضان المبارک آگیا اور وہاں تراویح پڑھانے کی ضرورت محسوس ہوئی... 

وہاں ان پاکستانیوں کے ساتھ ایک پاکستانی حافظ قرآن بھی موجود تھا مگر وہاں قانون کے مطابق تراویح پڑھانے والے حافظ صاحب حکومت سے طلب کئے جاتے ہیں... 


حکومت کے بھیجے ہوئے حافظ صاحب کو کسی وجہ سے تین چار روز کی تاخیر ہو گئی تو پاکستانی حافظ نے تراویح پڑھانا شروع کر دیں....


 حکومت کی طرف سے بھیجا گیا حافظ بھی وہاں پہنچ گیا اور اتفاق سے عین اس وقت پہنچا جب پاکستانی حافظ تراویح پڑھا رہا تھا.... 


تراویح ختم ہوئی تو عربی حافظ صاحب نے پاکستانی حافظ کو قریب بلایا اور کہا..... 

*’’من اعطاک صلاحیۃ تلعب مع کتابنا قران الکریم‘‘؟*

 یعنی تمہیں کس نے یہ اختیار دیا کہ تم ہماری کتاب قرآن سے کھیل کھیلو؟؟؟

 

*"ھل ترید تخلص المصحف فی لیلۃ الواحدہ؟؟؟"*

کیا تم اسے ایک ہی رات میں ختم کرنا چاہتے تھے؟؟؟


پاکستانی حافظ صاحب حیران و پریشان ہو کر ادھر ادھر تکنے لگا... 

ایک پاکستانی جو تھوڑی بہت عربی جانتا تھا، پاس آیا اور اس نے ترجمہ کر کے پاکستانی حافظ کو بتایا کہ عربی حافظ کیا پوچھ رہا ہے؟


پاکستانی حافظ نے جواب دیا میں نے کونسی غلطی کر دی....؟ 


عربی حافظ جواب میں بولا.... 

*’’ھل تقرون القران بھٰذا شکل مثل دراجہ الناریہ فت فت فت فت فت۔؟؟؟‘‘*

کیا تم لوگ قرآن کو اس طرح پڑھتے ہو جیسے موٹر سائیکل کی پھٹ پھٹ پھٹ پھٹ۔‘‘؟؟؟


اور مجھے ذرا یہ تو بتاؤ کہ تم کو تو میری زبان سمجھ آ نہیں رہی اور تم نے قرآن کیسے یاد کر لیا.....؟


بولو...........؟ 


کیا تم نے قرآن میں قرآن پڑھنے کے اصول نہیں دیکھے کہ قرآن کیسے پڑھا جاتا ہے.......؟


 کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی کہ:

 

*وَقُرْآناً فَرَقْنَاہُ لِتَقْرَأَہُ عَلَی النَّاسِ عَلَی مُکْثٍ وَنَزَّلْنَاہُ تَنزِیْلا* (سورہ الاسرا۔آیت106) :  

اور ہم نے قرآن کو وقتاً فوقتاً اس لیے اتارا کہ تم مہلت کے ساتھ اسے لوگوں کو پڑھ کر سناؤ اور اس کا مطالب انہیں ذہن نشین کراؤ ..... 


اور پھر ایک اور آیت نہیں دیکھی تم نے؟

*’’ورتل القراٰن ترتیلاً‘‘* (سورہ المزمل۔آیت 4)

  اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔

  

پھر تم کیسے اس طرح بھاگم بھاگ چلے جارہے ہو...؟ 

تم نے قرآن کو مقتدیوں کو ذہن نشین تو کرایا ہی نہیں۔ تم تو اسے ایک ہی رات میں ختم کرنے پر تلے ہوئے نظر آئے..


پاکستانی حافظ صاحب نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں کہا کہ 

*’’واللہ یا شیخ انا ما عرف ایش تقول‘‘*

 قسم ہے یا شیخ میں کچھ نہیں سمجھا کہ آپ کیا کہہ رہے ہو۔..؟؟


عربی حافظ نے جواب دیا کہ جب تم کچھ سمجھتے ہی نہیں تو پھر لوگوں کے آگے کیوں کھڑے ہوتے ہو؟

 *(لماذا واقف امام الناس؟‘‘)*

*انت تقراء بالسرعۃ۔...*

 تم بہت تیزرفتاری سے قرآن پڑھتے ہو۔

 

*ھدو لاک مساکین لوراک یمکن یسمعون ولاکن لا یفھمون ‘‘*

یہ جو لوگ تیرے پیچھے کھڑے ہیں یہ سنتے ہونگے، مگر سمجھ کچھ نہیں رہے ہونگے... 

 عربی حافظ نے کہا اگر آئندہ تم نے قرآن پاک کے ساتھ یہ کھیل کھیلا تو میں تمہیں پولیس کے حوالے کر دوں گا.... 


ساتھیو...!!!!

 یہ تو صرف ایک واقعہ ہے... مگر دیکھا جائے تو یہ پاکستان میں گھر گھر کی کہانی ہے... 


عہد رسالت میں جب قرآن پڑھا جاتا تھا تو سننے والوں کی کیا کیفیت ہوتی تھی....

 

اللہ فرماتا ہے : (سورہ المائدہ۔آیت 83) 

اور جب یہ لوگ وہ کتاب سنتے ہیں جو ہم نے نازل کی اپنے پیغمبر پر تو ان کی آنکھوں کی طرف دیکھو کہ کیسے آنسو رواں دواں ہیں... اس لیے کہ انہوں نے حق بات پہچان لی ہے.... 


اور یہاں ہمارے ہاں جب قرآن پڑھا جاتا ہے تو سننے والوں پر غنودگی طاری ہورہی ہوتی ہے... اور دل ہی دل میں دعا کر رہے ہوتے ہیں کہ جلدی جان چُھوٹے تو گھروں کو پہنچیں.... 


کیونکہ ہم سمجھتے ہی نہیں کہ کیا پڑھا جارہا ہے اور کیا کہا جارہا ہے۔


اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ :


*لَوْ أَنزَلْنَا ہَذَا الْقُرْآنَ عَلَی جَبَلٍ لَّرَأَیْْتَہُ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللَّہِ وَتِلْکَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُونَ ہ*

(سورہ الحشر... آیت 21)

اور (اس قرآن کی اثر انگیزی کا یہ عالم ہے کہ ) اگر ہم (مثال کے طور پر) اسے کسی پہاڑ پر نازل کر دیتے تو تم دیکھتے کہ اس کی خلاف ورزی کے احساس سے اس پر لرزہ طاری ہوجاتا اور ذمہ داری کے خیال سے وہ ریزہ ریزہ ہوجاتا..... 


اس قسم کی مثالیں اس لیے دی گئی ہیں کہ لوگ سمجھیں... 

عقل و فکر سے کام لیں اور سوچیں کہ قرآن کن کن عظمتوں کا مالک ہے....

 اس میں کونسا عظیم انسانی فلاحی نظام پیش کیا گیا ہے.... 

اس پر عمل کرنے میں کون کونسی کامیابیاں بیان کی گئی ہیں... 

اور اس کی خلاف ورزی سے کیا نتائج برآمد ہونگے....

..

اس سبق آموز تحریر کو اساتذہ کرام ، قراء حضرات، حفاظ کرام، علماء حق و باعمل مشائخ کے علاوہ نئی نسل کے نوجوانوں، با شعور شہریوں اور مساجد کی انتظامیہ و عہدیداران تک ضرور پہنچائیں ۔copy

Post a Comment

0 Comments