. 👈 *واصف خیال(سوال و جواب)*👉
سوال:-
ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے لیے زندگی کیوں مشکل ہے ؟
جواب:-
*جب فیصلہ ہو گیا کہ ”الدنیا سجن المومن وجنة الکافر“ دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافر کی جنت ہے ۔ پھر آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں دنیا قید خانہ نظر آ رہی ہے
سوال:-
زندگی گزارنا بہت مشکل ہے
جواب:-
*مومن کی نشانی یہی بتائی گئ ہے کہ اس کی زندگی مشکل ہو گی ۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟
سوال:-
مومن کی زندگی ہر جگہ مشکل ہوتی جا رہی ہے
جواب:-
یہی تو مومن کی تعریف ہے ۔ مومن کے لیے یہ زندگی مشکل ہو گی ۔ اور ”الدنیا سجن المومن“ دنیا مومن کا قید خانہ ہو گی ۔ آپ اس بات کی تصدیق کر رہے ہیں ۔ یہ آپ کا مشاہدہ ہے کہ مومن کے لیے زندگی مشکل ہوتی ہے
اور اللہ کے حبیب ﷺ نے یہی تو فرمایا ہے کہ مومن کے لیے مشکل ہو گی
سوال:-
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ مومن بھی رہے اور اس زندگی میں کسی طریقے سے سہولت بھی پیدا کر لے
جواب:-
*کیا آپ یہ کہہ رہے ہو کہ وہ زندگی کافروں جیسی گزارے ، فرعون کی گزارے اور اس کو عاقبت موسیٰ علیہ السلام کی ملے ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ محبت دنیا کی ہو
سوال:-
ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ”ربنا اتنا فی الدنیا حسنة و فی الاخرة حسنة تو اس کی ذرا وضاحت فرما دیں۔۔۔۔۔
جواب:-
*اس کا فیصلہ آپ خود کریں گے کہ ایسی زندگی ہو جس میں رہنا اتنا آسان ہو جتنا اس کو چھوڑنا ۔
کیا کہا؟ کبھی کبھی اپنے گھر سے باہر نکل کے دیکھو اور یہ سوچو کہ اگر مجھے اس وقت بُلاوا آئے اور ساتھ ہی Choice ملے کہ ہمارے کہنے پر فورََا آتے ہو یا کچھ اور کہتے ہو، اس وقت اگر آپ Extension مانگو تو پھر یہ حسنة آخرة نہیں ہے ۔
وہ آدمی جس کے لیے رہنا اور جانا برابر ہو وہ مومن ہے ۔
وہ آدمی جس کے بیوی بچے اس پر اتنے خوش ہیں جتنے اس کے ماں باپ اس پر خوش ہیں تو یہ ”حسنة الدنیا ہے اور حسنة الاخرة ہے ۔
ماں باپ کا راضی ہونا کیا ہے؟ آخرت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیوی بچوں کا راضی ہونا؟ دنیا ۔۔۔۔۔۔
بہت کم لوگ یہ Compromise کرا سکتے ہیں ۔ آپ یوں سمجھو کہ اس دنیا کے اندر کوئی ایسا کام جس میں نمائش نہ ہو اور وہ فی سبیل لله ہو ، اس میں کیا آپ کو انکم کرنے میں جتنی خوشی محسوس کرتے ہو کیا اُس کو اللہ کی راہ میں خرچ کر سکتے ہو ۔ یا اس کو ایک اور طریقے سے سوچو کہ کبھی اللہ مل جائے ، آپ سے آمنا سامنا ہو جائے تو اس سے کچھ کام کروانے ہیں یا اس کا کام کرنے کا دل کرے گا ، سجدہ کرنے کا دل کرے گا ۔
اللہ اگر براہِ راست سامنے آ جائے تو آپ کا کیا سوال ہو گا؟ اگر کوئی دنیاوی سوال ہے تو حسنة آخرة نہیں ہوا۔۔۔۔
سوال :-
پھر تو آخرت خراب ہو گئ
جواب:-
*خدا نخواستہ خراب نہیں بلکہ ابھی ٹھیک نہیں ہوئی ۔ آخرت خراب نہ کرو ، جھگڑا نہ کرو ۔
لہٰذا اللہ سامنے آ جائے تو دو چار کام نہ کرا لینا ۔
اللہ ملے تو آپ اللہ کو سجدہ کرو اور اپنی جان پیش کرو، یہ ہے حسنة و فی الاخرة ۔
اور یہ کہ منکم من یرید الدنیا ومنکم من یرید الا خرة کچھ لوگ ہیں تم میں سے جو دنیا کا ارادہ رکھتے ہیں اور تم سے ہیں جو آخرت کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
دنیا کا معنٰی ہے تعمیر ، حاصل ، قبضہ ، نمائش ، آرائش ، زیبائش ۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب دنیا ہیں ۔
دنیا کا معنٰی Obey کرانا ، شہرت چاہنا ، عزت حاصل کرنا ، پیسہ باوقار ہونا ، اپنے آپ میں زیادہ پھیلاوء اور زیادہ قوت کا حاصل کرنا ۔
یعنی کہ اپنے خیالات کو اپنے حاصل میں قائم رکھنا ، یہ دنیا ہے ۔
اور آخرت کیا ہے How you are remembered آپ لوگوں نے کیسے یاد کیا؟ یہاں پر آپ کیا عمل چھوڑ کے جا رہے ہیں کہ لوگ آپ کو That people remember you یعنی لوگ آپ کو کس انداز سے یاد رکھیں ۔
آپ نے کیا کام کیا؟ دنیا میں آپ نے انسانوں کو کتنا خوش کیا؟
آخرت کا معنٰی یہ ہے کہ مرتے وقت آپ کا ساتھ دنیا کا Relation کیا ہے ۔
جب جنازہ ہوتا ہے تو بات کا پتہ چل جاتا ہے ۔ فوری طور پر بات نکل آتی ہے ۔ کہتا ہے کہ وہ فوت ہو گئے تو لوگ کہتے ہیں کہ بڑی دیر کے بعد ہوا ہے
ورنہ نیک آدمی جو بوڑھا ہو ، مر جائے تو کہتے ہیں کہ ابھی بیچارے چلے گئے ، So early چلے گئے ۔ حالانکہ He was so old لیکن کہتے ہیں کہ So early چلے گئے
اور اگر سخت آدمی ہو اور چلا جائے تو کہتے ہیں کہ دیر سے گئے ہیں ،جانا چاہیے تھا ۔ جنازے سے پہلے یہ واقعات ہو جاتے ہیں ۔ کبھی آپ نے دیکھا ہے
سوال:-
ضرور ہوتا ہے
جواب:-
*مطلب یہ کہ عام طور پر فیصلہ ہو جایا کرتا ہے ۔
زندگی میں بھی فیصلہ ہو جاتا ہے ۔
اس لیے حسنة الدنیا اور حسنة الاخرة کا اللہ نے فیصلہ کیا کہ یہ مانگا کرو ۔
مانگنے کا مطلب کیا ہے؟ اللہ سے پیسہ مانگو ، اس سے عزت بھی مانگو اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق بھی مانگو ۔
اگر آپ کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق نہیں ہے تو وہ جمع کیا ہوا مال ہے ، سونا ، چاندی اور مہریں ، وہ گرم کر کے داغ لگا دیا جائے گا ھذہٖ ما کنزتم یہ وہ ہے جو تم چھپا کے رکھتے تھے ۔
اللہ نے اس کے بارے میں سخت منع کیا اور فرمایا کہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مال ان کو لافانی بنا دے گا ۔ حالانکہ مال کسی کو لافانی نہیں بناتا ۔
جمع مال و عددہ وہ مال جمع کرتے ہیں اور گنتے رہتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ تھوڑا سا فرق رہ گیا ہے ، گننا، جمع کرنا ، گننا ، جمع کرنا ، یہ ہے گمراہی کی دلیل ۔ یہ ہے دنیا ۔
جو لوگ یہ کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو مال شاید ہمیشہ رکھے گا یعنی اخلدہٖ حالانکہ ایسا نہیں ہو گا ۔
دنیا کی تمنا کیا ہے؟ مال کی تمنا دنیا ہے ، قیام بالاستحکام کی تمنا دنیا ہے ، شہرت کی تمنا دنیا ہے ،
شہرت جو ہے وہ Appreciate ہونے کی خواہش ہے اور یہ دنیا ہے ،
بااختیار اور بااقتدار ہونے کی تمنا دنیا ہے ،
یعنی کہ دنیا کی نگاہ میں اپنا مقام تلاش کرنا بھی دنیا ہے ۔ دنیا کے اندر آپ جو کچھ چاہتے ہیں یہ دنیا ہے
اور اللہ کی نگاہ میں آپ جو کچھ چاہتے ہیں وہ اللہ ہے ، عقبٰی ہے ۔
آپ کیا چاہتے ہیں کہ اللہ کے ہاں کیا مقام ہو؟ یہ یاد رکھنا کہ وہ Misguide نہیں ہو سکتا ،
وہ اللہ ہے ، وہ آپ کو جانتا ہے ، آپ کی نیت جانتا ہے ، آپ کے اعمال جانتا ہے ۔ اس لیے آخرت یہ ہے کہ آپ اللہ کی نگاہ میں کیا ہیں؟ یہ آخرت ہے کہ What you are in his eyes آپ کو بات سمجھ آئی؟
سوال:-
کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انسان کیا ہے؟
جواب:-
*مرتے وقت ، آخری لمحے میں اگر انسان کی نظر اس دنیا کی طرف پلٹی ہوئی ہے جسے وہ چھوڑ رہا ہے تو دنیادار ہے
اور اگر نگاہ Hopefully اللہ کی طرف جارہی ہے تو دین مکمل ہے ، آخرت ٹھیک ہے ۔
یعنی جب آپ کا وہ وقت آ گیا اور آپ نے پیچھے مُڑ نے کی تمنا کی ہے ، حسرت کی ہے ، لینا دنیا کیا ہے ، کوئی شے رہ گئ تو اس کا حساب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دنیاداری ہے ۔
اور اگر سمجھتے ہیں کہ وہ بہتر مقام ہے جدھر سے بُلاوا آیا تو آپ کی تیاری ہے ۔ یہ ہے آخرت
کہتے ہیں کہ نوح علیہ السلام کی عمر ہزار سال کے قریب تھی ، کچھ چودہ سو سال کہتے ہیں ۔
ملک الموت جب آئے تو انہوں نے کہا کہ
آپ اپنی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں کیونکہ اب آپ کا حکم نامہ جاری ہو گیا ہے ، ہزار سال تو رہے ہیں ، کوئی بات بتائیں ۔ آپ درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے ۔
یہ واقعہ پھر آگے Repeat بھی ہوا ، کسی حدیث شریف کے مطابق بھی ایسا واقعہ کہتے ہیں ۔
نوح علیہ السلام دھوپ میں چلے گئے اور فرمایا کہ
جسے تم ہزار سال کہہ رہے ہو میرے لیے تو وہ اتنی سی بات ہے
جیسے سائے سے دھوپ میں آ گیا اور دھوپ سے سائے میں آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چودہ سو سال میرے ایسے گزرے ہیں جیسے کوئی درخت کے نیچے سے اُٹھ کے دھوپ میں آ جائے ۔
پھر انہوں نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جتنی میری عمر ہے میں نے تو ایک کام کیا ہے کہ
صرف تیرا انتظار کرتا رہا ہوں کہ تو کب آئے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کو موت کا انتظار نہ رہے وہ رجوع الدنیا ہے ۔
جو موت کو Avoid کرنا چاہے ، بھاگنا چاہے ، چھپ جانا چاہے ، وہ دنیا کا رجوع رکھتا ہے ۔
موت تو اپنا ہی نام ہے ، گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے ۔
اس لیے وہ آدمی جو اس واقعہ کو Force کر سکتا ہے کہ
ہم ان کے ہیں ، اللہ کے ہیں ،
تو یہاں بھی اللہ اور وہاں بھی اللہ ۔
یہ صرف پردہ ہے ، حجاب سا ہے ، اِدھر رہتے ہیں تو ان لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں
اور اُدھر جاتے ہیں تو ان لوگوں کے پاس چلے جائیں گے جن کا کلمہ ہم پڑھتے ہیں
وہ اُدھر ، سارے اولیائے کرام اُدھر ،ماں باپ اور بزرگ اُدھر ، Grand parents اور Grand mothers Grand fathers سارے اُدھر ہیں ۔
اب اِن کے پاس ہیں پھر اُن کے پاس چلے جائیں گے ۔
گھبرانے والی کوئی بات نہیں ہے ۔
اگر آپ ایک لائن کراس کر جاوء تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ یہ لائن پتہ نہیں انسان کتنی بار کراس کر سکتا ہے ۔
یہ سمجھ آ سکتی ہے ۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کے خاص مضمون کی بات ۔
یہ وہ نہیں ہے جو آپ ہندٶوں والی بات سمجھتے ہیں
(گفتگو والیم 27 .......... صفحہ نمبر 258 ، 259 ، 260 ، 261 ، 262 ، 263 ، 264 ، 265)
حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ
0 Comments