ہم انسان خوبیوں، خامیوں کا مجموعہ ہیں، دوسرے بھی ہماری طرح مختلف خوبیوں خامیوں کا مجموعہ ہیں۔ نہ ہم فرشتے ہیں اور نہ دوسرے شیطان۔۔! شیطان ہم سب کے خون میں ویسے ہی دوڑتا ہے۔ جیسے دوسروں کے خون میں ۔۔۔ یہ ہم سب کا چیلنج ہے، جس سے نبرد آزما ہو کر ہم نے اس دنیا میں جنت کمانے آئے ہیں.
کبھی ہمیں لگتا ہے کہ دوسرے لوگ ہمیں نقصان پہنچانے کی تگ و دو میں ہیں.
جبکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے؛
"اے ایمان والو! اپنی فکر کرو ۔۔۔۔!
کسی دوسرے کی گمراہی سے تمھارا کچھ نہیں بگڑتا ۔۔۔۔
اگر تم خود راہ راست پر ہو۔۔۔!
اللہ کی طرف تم سب کو پلٹ کر جانا ہے، پھر وہ تمھیں بتا دے گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو". ( المائدہ : 105 )
دنیا میں ہمیں سوئی چبھنے کی تکیلف بھی اگر ہوتی ہے تو وہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔ اور اللہ نے فائدہ اور نقصان اپنے مبارک ہاتھوں میں رکھا۔ ہم جیسے کمزور انسانوں کو نہیں سونپا۔ اس لئے اپنے جیسے لوگوں سے خوف کھانا اس طرح سے کہ ہر وقت ہمارے دماغ میں ان کی وجہ سے ہلچل مچی رہے۔ بالکل مناسب نہیں.
دوسرے لوگوں کو کنٹرول کرنے یا ان سے من چاہے رویئے کی چاہت کے لئے سر دھڑ کی بازی لگانا بالکل درست نہیں۔
کیونکہ اللہ نے ہمیں اپنے اوپر نگران بنایا۔ "علیکم انفسکم"۔ ہماری اصل ذمہ داری ہے,
ہمارے جذبات
ہمارے احساسات
ہماری سوچیں
اور
ہمارے رویئے.
دوسرے لوگ اپنے کئے کے خود ذمہ دار ہیں۔ " بلاغ مبین " سے بڑھ کر ان کی مرضی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے کی ہمیں اجازت نہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ لوگوں کے بارے میں سوچنا 'بیماری' ہے اور اللہ کو یاد کرنا 'شفا' ہے۔
ہمیں اپنی توجہ اور فوکس کو درست کرنا ہو گا۔
" کوئی مصیبت ایسی نہیں جو زمین میں یا تمھارے اپنے نفس پر نازل ہوتی ہو اور ہم نے اس کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں لکھ نہ رکھا ہو۔ ایسا کرنا اللہ کے لئے بہت آسان کام ہے۔
( یہ سب کچھ اس لئے ہے)
تاکہ جو کچھ بھی نقصان تمھیں ہوا، اس پر تم دل شکستہ نہ ہو، اور جو کچھ اللہ نے تمھیں عطا فرمائے اس پر پھول نا جاؤ ۔ اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے اور فخر جتاتے ہیں, جو بخل کرتے ہیں اور دوسروں کو بخل پر اکساتے ہیں۔ اب اگر کوئی روگردانی کرتا ہے تو اللہ بے نیاز اور ستودہ صفات ہے۔" (الحدید 22۔24)
لوگوں سے خوف اور ڈر کے بجائے ہمیں اصل اتھارٹی کی طرف جانا ہو گا۔ ورنہ اللہ ہمارے معاملے کو ہمارے جیسے کمزور انسانوں کے حوالے نہ کر دیں۔
"۔۔۔ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس کا حقدار ہے کہ تم اس سے ڈرو۔"
( الاحزاب : 37)
ڈر اور خوف کا حق صرف اتھارٹی کو ہے جو ہر چیز کا مالک ہے، جس کا انصاف اور علم اور رحم مکمل ہے۔
لوگ ہماری طرح کے انسان ہیں ان کے ساتھ قول معروف، قول سدید اور حسن گمان کے ذریعے۔ لوگوں کے ساتھ معاملہ کریں۔
" اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو (خدا ترسی کا روش اختیار کرو) اور ٹھیک /سیدھی / کھری بات کیا کرو۔ اللہ تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اس نے بڑی کامیابی حاصل کی۔" (الاحزاب)
یہاں "Assertivenes "کے اصول یاد رکھنا اور "قول سدید" کی صلاحیت حاصل کرنے کی محنت ضروری ہے۔ ہم اپنے قول کی پختگی پر کام کر کے ہی کردار کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ نفس کا تزکیہ ہماری ذمہ داری ہے۔ اور اسی کا اجر ہم کل اللہ رب العزت سے پایئں گے.
اللہ ہم سب کو اپنی توجہ ان چیزوں پر مرکوز کرنے کی توفیق دے جو فائدہ مند ہیں۔
0 Comments