بھکاری کا حق
۔"" "" "" "" ""
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر اُن لوگوں کی تفصیل بیان کی ہے جن پر مال خرچ کیا جانا چاہیئے۔ اِن میں رشتہ دار، یتیم ، مسکین ، مسافر ، ناگہانی مصیبت میں مبتلا لوگوں کے علاوہ خود اپنی ضرورت کے لئے سوال کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص اپنی ضرورت کے لئے خود سوال کر دے تو اس کے بعد اگر انسان کچھ دینے کی حیثیت میں ہو تو اُسے بہت زیادہ تحقیق نہیں کرنی چاہیئے۔ ایک عمومی اطمینان کے بعد مدد کر دینی چاہیئے اور اگر کسی وجہ سے اطمینان نہ ہو تو سلیقے اور نرمی سے معذرت کر لینی چاہیئے۔
سائلوں کو دینے کا یہ حکم اُس رب کا ہے جس کے ہاتھ میں کل کائنات کی بادشاہی ہے. اُس کے قبضۂ قدرت میں ہر شے ہے. اُن کے خزانوں میں کسی قسم کی کمی ہے نہ انہیں کوئی مجبوری اور عذر لاحق ہوتا ہے. کوئی نفع و ضرر اور کوئی خیر و شر رب العالمین کے اذن کے بغیر ظہور پذیر نہیں ہو سکتا. وہ جو چاہتے ہیں ہوجاتا ہے، جو نہیں چاہتے وہ نہیں ہوتا.
اِس درجہ کی قدرت ، اختیار اور قوت رکھنے والی ہستی جب مانگنے کو خود ایک استحقاق قرار دے دے تو گویا وہ انسانوں کو ایک دوسرا پیغام بھی دے رہا ہے. وہ یہ کہ جب تم میری بارگاہ میں آؤ تو یاد رکھو کہ تمھارا صرف مانگ لینا تمھیں میرے کرم کا مستحق بنا دے گا. تم چاہے نیک نہ ہو ، متقی نہ ہو ، ایمان دار نہ ہو لیکن اگر میرے پاس آ کر مجھ سے تڑپ کر رجوع کرو گے تو میں تمھاری توبہ بھی قبول کروں گا اور تم پر اپنی رحمتوں کے دروازے بھی کھول دوں گا..
خدا سے مانگنے کے لئے کسی کو نیکوکار ہونے کی ضرورت نہیں، نہ ماضی کی وفاداری کا کوئی ریکارڈ ساتھ لانا ضروری ہے. صرف اپنا اضطرار ، صرف یہ یقین کہ اللہ ہی دینے والا ہے اور صرف یہ عزم کہ بندہ آئندہ رب کا شکر گزار رہے گا ، اسے مستحق بنانے کے لئے کافی ہے..
0 Comments