Wishlist & Checkout page is available for premium users Buy Now

یوں تو بچے عموماً شرارتی ہوتے ہیں لیکن بعض بچے

 یوں تو بچے عموماً شرارتی ہوتے ہیں لیکن بعض بچے بے حد ضدی بھی ہوتے ہیں جن سے کوئی کام کرانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہوتا ہے۔ تاہم امریکی نیورو لینگویسٹک اور ہپناٹزم کی ماہر خاتون کا کہنا ہے کہ اگر بچے کہنا نہ مانتے ہوں تو ان سے الفاظ تبدیل کر کے اپنی مرضی سے کام لیا جا سکتا ہے۔

ہارلے کے مطابق الفاظ کا انداز بچوں کو فرمانبردار بنا سکتا ہے اور اس کے ذریعے وہ کوئی بھی کام کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی نئی کتاب ’’ورڈز دیٹ ورکس‘‘ میں اس کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے اور وہ بچوں کے رویوں سے پریشان والدین کے لیے یہ تجاویز پیش کرتی ہیں جنہیں آزمانے میں کوئی ہرج نہیں۔ سائنسی پیمانے پر ثابت یہ الفاظ بچوں پر اثر کرتے ہیں مثلاً ’ مت کرو‘ کی جگہ ’ شکریہ‘ کہہ کر بچوں کو کوئی حکم دیا جائے تو اس کا فوری اثر ہو گا۔

’’ناں‘‘ کی جگہ ’’ہاں‘‘ منفی کی جگہ مثبت:

’’ اپنا کمرہ گندا مت کرو‘‘ اور یہ ’’نہ کرو اور وہ نہ کرو‘‘ کی بجائے مثبت جملے استعمال کیے جائیں جو بچوں پر جادو کی طرح اثر کرتے ہیں کیونکہ انکاری جملے بچوں پر منفی اثر ڈالتے ہیں اس لیے اس کی بجائے بچوں سے کہیں کہ ،چلو کمرہ صاف کرتے ہیں، جوتے اسٹینڈ پر رکھتے ہیں اور کھلونے الماری میں۔‘ یہ جملے بچے پر مثبت اثر ڈالیں گے اور وہ عمل کرنے لگیں گے۔


• بچوں کے بہت سے انتخابات پیش کیجیئے :

روزانہ مائیں بچوں کو یہ کہتی ہیں، ’جلدی کرو اسکول یونیفارم پہنو،‘ اور یہ جملہ بچوں پر اثر نہیں کرتا اس کی جگہ بچوں کے سامنے بہت سے انتخاب پیش کریں، مثلاً آج اسکول میں کھانے کے لیے کیا لے جاؤ گے یا نیا یونیفارم پہنوگے یا پرانا والا۔ اور بچوں سے اس کو سوالیہ انداز میں پیش کریں اس طرح کے جملے بچوں پر بہت اچھا اثر ڈالتے ہیں۔

اسی طرح بچوں کو ہوم ورک کرانے کے لیے بھی چوائس پیش کریں، مثلاً کیا تم پہلے اردو کا کام کرو گے یا اپنے ہفتہ وار پروجیکٹ کرنا چاہو گے۔ ان الفاظ سے بچے ذہنی طور پر کام کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اسی طرح کھانا کھلانے کے لیے بچوں سے معلوم کرنے کی بجائے ان کے سامنے بہت سے کھانوں کے آپشن رکھیں۔


• ’’ کب‘‘ کا استعمال:

ماہرین کے مطابق ’’کب‘‘ کا لفظ اگر درست طور پر استعمال کیا جائے تو وہ ایک اہم قوت رکھتا ہے۔ والدین بچوں کے لیے اس لفظ کو درست جگہ استعمال کر کے اہم کام لے سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر ، تم اپنا ہوم ورک کب ختم کرو گے، ہمیں کھانا کھانا ہے یا ، یا جب تم یہ کام کر لو گے تو ہم باہر چکر لگانے چلیں گے۔ اس جملے میں بچے کے لیے ایک کام ہے اور ایک پرکشش تفریح۔ اچھے سیلزمین بھی ان ہی جملوں کو استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کو اسکول کا کام کرواتے وقت یہ کہیں کہ ’جب تم سبق یاد کر لو گے تو تمہیں خود ہی احساس ہو جائے گا کہ یہ کتنا آسان کام تھا۔‘


• والدین اور بچوں کے درمیان زبان کا رشتہ:

درست زبان استعمال کر کے اپنے اور بچے کے درمیان سمجھ بوجھ کا ایک مضبوط رشتہ بنائیں۔ بچوں سے اس طرح کے جادوئی جملے کہیں کہ ’’میں تمہاری طرح یہ سمجھ سکتا یا سکتی ہوں کہ کتنے سارے کام ہیں‘‘ یا ’’ تم میرے جیسے ہو اور یہ جان سکتے ہو کہ ہوم ورک کرنا کتنا آسان ہے۔‘‘ میرے جیسا یا تمہارے جیسا لفظ بچے کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اور وہ کام پر آمادہ ہوتا ہے۔

’شکریہ کا لفظ پہلے ادا کریں نہ کہ بعد میں :

بچے اپنے والدین کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور وہ اس کی پذیرائی بھی چاہتے ہیں۔ اس لیے اگلی مرتبہ بچوں کو ہاتھ دھونے، ٹی وی بند کرنے یا پانی دینے سے قبل ’شکریہ‘ کا لفظ کہیں جس سے وہ عمل کی جانب راغب ہوتے ہیں اور کام کرتے ہیں۔


• ہر کام کی وجہ بیان کریں:

بچے تجسس رکھتے ہیں اور ہر کام کی وضاحت چاہتے ہیں اس لیے ان میں ایک حد تک کاموں کی سمجھ پیدا کرنا ضروری ہے۔ اسی لیے کوئی بھی کام کروانے سے قبل بچوں کو اس کی مختصر وجہ بیان کرنا ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً اس ماہ کپڑے نہیں خرید سکتے کیونکہ ایک بڑا خرچ سامنے آ گیا ہے۔ اس سے بچہ مطمئن ہوجاتا ہے۔


• ’سنو‘ اور ’اگر سوچو‘ جیسے جملے:

بچوں کو کام کی تحریک دینے والے طاقتور الفاظ میں سے 2 تو الفاظ ہیں ’سنو‘ اور ’ ذرا سوچو تو‘۔ مثلاً سنو ہمیں یہ کام کرنا ہے کیونکہ نہ ہونے کی صورت میں یہ نقصان ہو سکتا ہے یا ’اگر سوچو تو کہ ہوم ورک کر لو گے تو کتنا اچھا ہو گا۔‘ ایسے جملے بچوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس طرح آپ ان سے کوئی بھی کام کروا سکتےہیں۔


• بچوں کا شکایتی لہجہ:

بہت سے بچے والدین سے ہر معاملے کی شکایت کرتے ہیں۔ اس کا ایک حل یہ ہے کہ آپ ان کی وہی شکایت ان پر دوبارہ لوٹا دیں لیکن اس میں اس کا حل ہو اور وہ بھی بہت مؤثر انداز میں پیش کیا جائے۔ اگر بچہ کہے کہ گرمی لگ رہی ہے تو آپ کہیے، ’ اوہ! تو آپ کو قدرے ٹھنڈ چاہیئے تو اس کے لیے کھڑکی کھول دیتے ہیں یا اپنی جیکٹ اتار دو۔ ‘ آپ دیکھیں کہ اس طرح بار بار شکایت کرنے والا بچہ مطمئن ہو کر خاموش ہو جائے گا ۔۔۔

Post a Comment

0 Comments